کيا عشق ايک زندگي مستعار کا
کيا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کي شمع بجھا دے اجل کي پھونک
اس ميں مزا نہيں تپش و انتظار کا
ميري بساط کيا ہے ، تب و تاب يک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگي جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق ديکھ دل بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کي کھٹک لازوال ہو
يارب ، وہ درد جس کي کسک لازوال ہو!
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حريم کبريا سے آشنا کر
جسے نان جويں بخشي ہے تو نے
اسے بازوئے حيدر بھي عطا کر